Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

  اماں جان نے اپنے آگے رکھے ان گفٹس کو دیکھا پھر قریب بیٹھی پری پر گہری نگاہ ڈالی جو دھیرے سے مسکرا رہی تھی۔
”اچھا، میں سمجھی تم رات میں سو رہی تھیں۔ مگر… تم جاگ رہی تھیں یہ تمام تحفے تمہاری بیداری کا ثبوت ہیں۔“
”دادی جان! آپ نے مجھ سے کیوں چھپایا وہ سب؟ میں تو آپ سے کچھ نہیں چھپاتی ہر دکھ، ہر خوشی آپ سے شیئر کرتی ہوں۔“ اس نے ان کے شانے پر سر رکھ کر اداسی سے کہا تھا۔
”کیا بتاؤں بیٹا! چھپانے کیلئے بھلا رکھا ہی کیا ہے میرے پاس۔ مگر… میری بچی! یہ تحفے واپس ٹرنک میں رکھ دو ان کو نہیں لے سکتی۔ یہ وہ تحفے ہیں جو تمہاری ماں اور نانی نے تمہیں دیئے ہیں اور کسی کے خلوص سے دیئے گئے تحفے باٹنتے نہیں ہیں۔“
”دادی جان اگر آپ نے یہ تحفے واپس کئے تو میں ناراض ہو جاؤں گی۔


یہ میری چیزیں ہیں میں کسی کو بھی دوں اس پر مما اور نانو کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھلا؟ پھر ان کو کیا معلوم میں ان کے دیئے گئے تحفوں کا کیا کر رہی ہوں۔

”میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا پری! میں کچھ نہ کچھ بندوبست کرلوں گی یہ انگوٹھی دیکھ رہی ہو نا تم یہ بھی اس وقت ایک ڈیڑھ لاکھ سے کم نہیں ہے اصلی ہیرا جڑا ہے اس میں اور دو تولے کی ہے یہ۔“ انہوں نے پاندان سے ایک انگوٹھی نکال کر اسے دکھاتے ہوئے کہا۔
”یہ انگوٹھی فروخت کریں گی آپ؟ کتنی عزیز ہے یہ انگوٹھی آپ کو، آپ ہی بتاتی ہیں تاؤ کی پیدائش پر دادا جان نے آپ کو یہ گفٹ کی تھی۔
“ اس کی بات پر ان کے لبوں پر ایک دکھ بھری مسکراہٹ دوڑ گئی۔ آنکھیں بھی جھلملا سی گئی تھیں۔
”اللہ میرے فراز کو سلامت رکھے وہ موجود ہے مجھے اس انگوٹھی کا کیا کرنا ہے یونہی پڑی ہے اب تو مدت ہوئی میں نے اسے پہننا چھوڑ دیا ہے۔ اچھا ہے فروخت ہو کر کسی کام تو آئے گی۔“
”تاؤ کے ذکر پر اس کا چہرہ تاریک سا ہوا تھا صبح سے وہ ان کی صحت یابی کیلئے دعائیں کر رہی تھی، طغرل بھی بے حد اپ سیٹ تھا وہ اور مذنہ رات کو آسٹریلیا کیلئے روانہ ہونے والے تھے۔
”کتنا اچھا لگ رہا ہے آپ جب تاؤ کو دعائیں دے رہی ہیں دادی جان! آپ ان کیلئے دعا کرتی رہا کریں۔ ماں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ہے۔“
”پگلی! میں تو سب کیلئے دعا کرتی ہوں، عامرہ، آصفہ، فیاض اور تم سب لوگ میری دعاؤں میں شامل رہتے ہو، مگر فراز کیلئے میں خصوصی دعا کرتی ہوں، وہ ہم سب سے دور ہے سات سمندر پار۔“
”جی دادی جان! آپ کی دعائیں انمول خزانے کی مانند ہیں۔
“ اس نے مشکل سے آنکھوں میں آنے والی نمی ضبط کی اور پھر دادی کو وہ تمام تحائف لینے پر راضی کر ہی لیا۔
”بہت دماغ کھا چکی ہو میرا، اب جا کر مزیدار سی چائے لے کر آؤ اور فیاض کو میرے پاس بھیجتے ہوئے جاؤ۔“
”پاپا آج جلدی آ گئے ہیں؟“
”ہاں! وہ رات کا کھانا طغرل اور مذنہ کی وجہ سے گھر میں کھانا چاہتا ہے۔“ وہ ہاں سے نکل کر پاپا کو بلانے لیونگ روم میں آئی تھی اور صوفے پر بڑے طمطراق سے بیٹھے شخص کو دیکھ کر دم بخود رہ گئی تھی۔
تم جب بھی ملو تو نظریں اٹھا کر ملا کرو
مجھے پسند ہے تمہاری آنکھوں میں اپنا آپ دیکھنا
###
کشش تو بہت تھی میرے پیار میں لیکن
کیا کروں کوئی پتھر پگھلتا ہی نہیں
اگر خدا ملے تو اس سے اپنا پیار مانگوں گی
پر سنا ہے وہ مرنے سے پہلے کسی سے ملتا ہی نہیں
”تم… آپ…؟“ شہر یار کو وہاں دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئی اس پر مستزاد اس کی اطمینان بھری شوخی و ہٹ دھرم سا انداز اس کو سراسیمہ کر گیا وہ غصے سے گویا ہوئی۔
”آپ کو جرأت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟“
”فیاض انکل کے بلاوے پر یہاں آیا ہوں۔“ وہ اس کی طرف بھرپور نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اس کے انداز میں بڑی سرخوشی تھی بات کرتے ہوئے جھک کر دھیمے لہجے میں گویا ہوا۔
”خیر آپس کی بات ہے انکل یہاں لانے کیلئے مجھ سے اصرار بھی نہ کرتے تو میں خود ان سے اصرار کرتا یہاں آنے پر، بے حد بے قرار رہا ہوں میں آپ کو دیکھنے کیلئے۔
”آپ کی غیر دماغی حالت پر مجھے پہلے دن ہی یقین ہو گیا تھا اور اب آپ کے پاگل پن کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔“
”میری خوش قسمتی ہے ڈیئر۔“ اس کا انداز از حد ریشہ خطمی ہے۔
”کیا کھڑی رہیں گی؟ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں آخر ایسی بے رخی بھی کس بات کی گھر آئے مہمان سے‘ اس طرح برتاؤ کیا جاتا ہے کیا؟“ اس کے انداز میں یک دم ہی بے چارگی سی ابھر آئی تھی۔
”ہونہہ… آپ پاپا کے مہمان ہیں میرے نہیں اور میرے مہمان آپ جیسے لوگ کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔“ اس کے انداز میں اتنی سختی و بیگانگی تھی کہ شہریار کا مسکراتا ہوا چہرہ سنجیدہ ہو گیا اس نے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبایا۔
”آپ کو اتنا بھی سینس نہیں ہے آپ کہاں ہیں؟ کس کے متعلق کیا بات کر رہے ہیں؟ اگر مجھے پاپا کا خیال نہ ہوتا تو میں آپ کو دھکے دے کر یہاں سے نکلوا دیتی چند لمحوں میں۔
”آپ اتنی ہائپر کیوں ہو رہی ہیں؟ میں نے آپ سے صرف درخواست کی ہے کہ… میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں، اگر آپ راضی نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں۔“ لمحے بھر میں وہ اپنی کیفیت پر قابو پا کر گویا ہوا تھا۔
”میں آپ سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتی، سمجھے آپ؟“
”لیکن کیوں؟ مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے ایسی یہ بتائیں آپ؟“ قبل اس کے کہ وہ جواباً کچھ کہتی کوریڈور سے آتی صباحت اسے نظر آئیں اور اس کو یہاں سے جانے میں ہی عافیت دکھائی دی تھی۔
”ارے کہاں جا رہی ہیں آپ؟ میری بات تو سنیں۔“ اس کو جاتے دیکھ کر وہ تیزی سے آگے بڑھا تھا اس اثناء میں وہ کچن سے لان میں وا ہونے والے عقبی دروازے سے باہر جا چکی تھی۔
”اوہ بیٹا! آپ ابھی تک کھڑے ہیں؟ پلیز بیٹھے نا…“ صباحت اس کو کھڑا دیکھ کر شرمندہ لہجے میں بولیں۔
”میں جاؤں گا آنٹی!“ پری کے جانے سے گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی تھی لمحوں میں بہار خزاں میں تبدیل ہو گئی تھی۔
”ارے، کیوں جائیں گے بھلا؟ ابھی تو آپ آئے ہیں، فیاض نے بتایا آپ کے آنے کا، میں بے حد خوش ہو گئی آپ ایزی ہو کر بیٹھیں، میں آپ کو اچھی سی کافی پوالتی ہوں۔“ وہ حقیقتاً شہریار کو اپنے گھر میں دیکھ کر خوش ہوئی تھیں۔
ان کے بے حد اصرار پر اس کو بیٹھنا پڑا مگر پری کے رویے کی وجہ سے اس کا دل بڑی عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا اس کی موجودگی میں پری یہیں رہے کہ اس کی موجودگی میں دل کو بہت راحت ملتی تھی اور وہ پارٹی والے دن صباحت کا رویہ پری کے ساتھ نوٹ نہ کرتا تو… آج وہ پری کی سرد مہری کی شکایت ان سے ضرور کرتا مگر وہ جانتا تھا وہ پری کی سوتیلی ماں ہیں اور کسی حد تک پری کو پسند نہیں کرتی ہیں۔
”کیا سوچنے لگے بیٹا؟ کوئی پرابلم ہے کیا؟“ وہ اس کی خاموشی دیکھ کر استفسار کرنے لگیں۔
”نہیں آنٹی! آپ مجھے اجازت دیں تو اچھا ہے میں لیٹ ہو رہا ہوں، مجھے فرینڈ سے ضروری میٹنگ کرنی ہے۔“
”فیاض تو کہہ رہے تھے آپ ڈنر کریں گے ہمارے ساتھ۔“
”دراصل پروگرام تو یہی تھا…“
”پروگرام تھا نہیں پروگرام ہے، میں آپ کو جانے نہیں دوں گی۔
###
اس پر شدید سرشاری طاری تھی۔
زمین سے اس کے قدم اٹھ چکے تھے وہ ہواؤں کے دوش پر اڑی جا رہی تھی، آسمان روئی کے نرم و ملائم گالوں کی طرح اسے چھوتا ہوا گزر رہا تھا اور وہ اوپر کی طرف اڑتی جا رہی تھی۔
”ساحر! ایک بات پوچھوں؟“ اس کا چہرہ اس کے شانے پر تھا۔
”ہوں… پوچھو، ایک نہیں ہزاروں۔“ اس کی دھیمی سرگوشی ابھری تھی۔
”میں آکاش پر اڑ رہی ہوں، بہت بلندی پر ہوں، اتنی بلندی پر کہ بادلوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے میں نے۔“
”میڈم! آپ ہی نہیں ہم بھی اڑ رہے ہیں آپ کے ساتھ یعنی اور بھی لوگ ہیں ہمارے ساتھ، آنکھیں کھول کر دیکھئے، ہم جہاز میں ہیں اور جہاز اڑ رہا ہے۔“ ساحر کے سرگوشیانہ لہجے میں شوخی سے ابھر آئی تھی۔
”میں آنکھیں نہیں کھولوں گی، کبھی بھی۔
”اسٹوپڈ! یہ کیا بات ہوئی بھلا؟“ وہ ہنسا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا ہے میرے خواب حقیقت بن گئے ہیں۔“
”آنکھیں کھولو گی تو یقین آئے گا۔“
”نہیں، میں آنکھیں نہیں کھولوں گی۔“ کسی انجانے خوف سے اس کی آواز لرز اٹھی تھی۔
”کہیں ایسا نہ ہو آنکھیں کھولنے کے بعد پھر خواب خواب ہی رہیں، حقیقت نہ بن سکیں۔“
”اوکے جب تک جہاز لینڈ نہیں کرتا تب تک تم سوتی رہو لیکن ایک بات کا خیال رکھنا، مجھے اپنی یاد داشت پر اتنا بھروسہ نہیں ہے۔
“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”تم سوتی رہیں اور میں بھول کر چلا گیا تو پھر تمہارا کیا ہوگا؟“
”کیا…؟“ اس نے ایک دم گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور سیدھی بیٹھ گئی دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر۔
”گڈ آئیڈیا ہے نا نیند سے بیدار کرنے کا؟“ ساحر ہنس کر گویا ہوا جب کہ رخ بدحواسی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”کیا ہوا بھئی، اس طرح کیوں یکھ رہی ہو مجھے؟“
”تم نے کیا کہا تھا ابھی؟ مجھے چھوڑ کر جانے کی بات…“
”اوہ کم آن ڈرالنگ! میں مذاق کر رہا تھا، تم مجھے سارے راستے بور کرتی آئی ہو، میں نے سوچا تمہیں بھی تنگ کیا جائے۔
“ وہ اسے سنجیدہ دیکھ کر مسکرا کر گویا ہوا تھا۔
”ایک لمحے میں میرے دل پر بجلی کر گئی ہے، آئندہ مذاق میں بھی ایسا مت کہنا، میں تمام کشتیاں جلا کر تمہارے ساتھ آئی ہوں۔“
”کم آن، میں نے کہا نا میں مذاق کر رہا تھا۔“ اس نے اس کے لرزتے ہاتھ بڑی محبت سے اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔
”تمہیں چھوڑنا ہی ہوتا تو یہاں ساتھ کیوں لاتا یہ سوچو تم۔“
”میں تمہاری محبت پر یقین کرکے یہاں تک چلی آئی ہوں۔“
”تمہارے یقین کو کبھی متزلزل ہونے نہیں دوں گا، میں چاہتا ہوں آنکھیں کھول کر میرے ساتھ اس دنیا کو دیکھو جو ہم دونوں کیلئے ہے۔“

   1
0 Comments